سونا تھا جتنا عہد جوانی میں سو لیے
اب دھوپ سر پہ آ گئی ہے آنکھ کھولیے
یاد آ گیا جو اپنا گریباں بہار میں
دامن سے منہ لپیٹ لیا اور رو لیے
اب اور کیا کریں ترے ترک ستم کے بعد
خود اپنے دل میں آپ ہی نشتر چبھو لیے
پروانۂ رہائی خامہ تو مل گیا
لیکن حضور اب در زنداں بھی کھولیے
اپنے لیے تعین منزل کوئی نہیں
جو بھیڑ جس طرف کو چلی ساتھ ہو لیے
تھی ناگوار طبع تجھے سادگی عشق
لے آج ہم نے پلکوں میں موتی پرو لیے
ہر اک بزعم خویش جہاں ہو سخن شناس
بہتر یہ ہے صباؔ کہ وہاں کچھ نہ بولئے