کہاں سے آئیں گے دام سوچا ہوا ہے میں نے
چھڑانا ہے اک غلام سوچا ہوا ہے میں نے
اگر میں سورج کے ساتھ ڈھلنے سے بچ گیا تو
کہاں گزاروں گا شام سوچا ہوا ہے میں نے
میں اک مسلسل سفر میں گم ہوں مگر وہ بستی
جہاں کروں گا قیام سوچا ہوا ہے میں نے
میں اک ایسا جہاں بنانے کی فکر میں ہوں
کہ جس کا ہر انتظام سوچا ہوا ہے میں نے
میری دعا ہے وہ آئے اور میں اسے پکاروں
کہ اس کا اچھا سا نام سوچا ہوا ہے میں نے
شروع کرنے کا وقت ہی تو نہیں ہے ورنہ
کہانی کا اختتام سوچا ہوا ہے میں نے
میرا عدو میرا دوست بن جائے گا بالاخر
سلیم وہ انتقام سوچا ہوا ہے میں نے