سوچتا ہوں کہ ان سوالوں کا کس طرح سے جواب لکھوں
میں زندگی کی کتاب کا کس نام سے انتساب لکھوں
اے وطن جن راہنماؤں نے تجھ سے ہولی کا کھیل کھیلا
نہیں ممکن کہ ایسے لوگوں کو بھی میں عالی جناب لکھوں
اے میری قوم کے سپوتوں ذرا یہ سوچو ذرا یہ سمجھو
کچھ ایسا کر جاؤ زندگی میں کہ تم پہ بھی میں کتاب لکھوں
عصر حاضر کی خار راہوں پہ چلنا اتنا آساں نہیں ہے
اے خدا مجھ کو ایسا کر دے کہ اپنا خود احتساب لکھوں
تیرے پہلو میں گزرے لمحے مجھے ہمیشہ سے ہاد تو ہیں
تیری جدائی میں جو گزارے میں ان کا کیسے حساب لکھوں
زندگی کی ہر اک ڈگر پہ سمیٹے میں نے جو پھول کانٹے
کبھی میں ان کو گلاب لکھوں کبھی میں ان کو سراب لکھوں
زندگی کو سنوارنا اور گزارنا سیکھ لے تو خالد
وقت ہے اب کہ رفتہ رفتہ میں زندگی کا نصاب لکھوں