تمام رات رہی چشم تر، سویا نہیں ہوں میں
کیا کہوں کہ رات بھر ، سویا نہیں ہوں میں
کہہ گئی تھی وہ، گھر آﺅں گی آج شام
مضطرب تھا میرا سارا گھر، سویا نہیں ہوں میں
جکڑی گئی نہ ہو کہیں، زمانے کی زنجیروں میں
سو وحشتیں تھیں، سو تھے ڈر، سویا نہیں ہوں میں
وہ تو چاند تھا ، پھر کیسے وہ بے خبر رہا؟
کہکشاں تک تھی خبر، سویا نہیں ہوں میں
تمام عمر سنگ رہنے کا، دعویٰ کرنے والی
پل بھر نہ ہوئی جلوہ گر، سویا نہیں ہوں میں
کل رات تھی وہ حاوی، اغیار کی محفل میں
جانتا تھا سب کچھ مگر، سویا نہیں ہوں میں