وہ سایہ دار شجر
جو مجھ سے دُور ، بہت دُور ہے، مگر اُس کی
لطیف چھاؤں
سجل، نرم چاندنی کی طرح
میرے وجود، میری شخصیت پہ چھائی ہے
وہ ماں کی بانہوں کی مانند مہرباں شاخیں
جو ہر عذاب میں مُجھ کو سمیٹ لیتی ہیں
وہ ایک مشفقِ ریرینہ کی دُعا کی طرح
شریر جھونکوں سے پتوں کی نرم سرگوشی
کلام کرنے کا لہجہ مُجھے سکھاتی ہے
وہ دوستوں کی حسیں مُسکراہٹوں کی طرح
شفق عذار،دھنک پیرہن شگوفے،جو
مُجھے زمیں سے محبت کا درس دیتے ہیں
اُداسیوں کی کسی جانگذار ساعت میں
میں اُس کی شاخ پہ سررکھ کے جب بھی روئی ہوں
تو میری پلکوں نے محسوس کرلیا فوراً
بہت ہی نرم سی اِک پنکھڑی کا شیریں لمس
نِمی تھی آنکھ میں لیکن مَیں مُسکرائی ہوں
کڑی دھوپ ہے
تو پھر برگ برگ ہے شبنم
تپاں ہوں لہجے
تو پھر پُھول پُھول ہے ریشم
ہرے ہوں زخم
تو سب کونپلوں کا رَس مرہم
وہ ایک خوشبو
جو میرے وجود کے اندر
صداقتوں کی طرح زینہ زینہ اُتری ہے
کرن کرن میری سوچوں میں جگمگاتی ہے
مُجھے قبول،کہ وجداں نہیں یہ چاند میرا
یہ روشنی مجھے ادراک دے رہی ہے مگر
وہ ایک جھونکا
جو اُس شہرِ گُل سے آیا تھا
اَب اُس کے ساتھ بہت دُور جاچکی ہُوں میں
میں ایک ننھی سی بچی ہوں ،اور خموشی سے
بس اُس کی اُنگلیاں تھامے،اور آنکھیں بند کیے
جہاں جہاں لیے جاتا ہے،جارہی ہوں میں
وہ سایہ دار شجر
جو دن میں میرے لیے ماں کا نرم آنچل ہے
وہ رات میں، میرے آنگن پہ ٹھہرنے والا
شفیق، نرم زباں، مہرباں بادل ہے
میرے دریچوں میں جب چاندنی نہیں آتی
جو بے چراغ کوئی شب اُترنے لگتی ہے
تو میری آنکھیں کرن کے شجر کو سوچتی ہیں
دبیز پردے نگاہوں سے ہٹنے لگتے ہیں
ہزار چاند، سرِشاخ گُل اُبھرتے ہیں