سپرد غیروں کے تو حالات نہیں کر سکتی
خود کو اب وقفِ مضافات نہیں کر سکتی
ایک ہی شہر میں رہنے کا نتیجہ یہ ہے
تجھ سے اس ماہ ملاقات نہیں کر سکتی
وقت کی دھوپ میں جلتا ہے مرا دل لیکن
اپنے سائے سے یہاں بات نہیں کر سکتی
میری مجبوری مرے پاؤں کی زنجیر بنی
ورنہ یوں پیار کو خیرات نہیں کر سکتی
میری راتوں کے سہارے ہیں ستارے وشمہ
چاند کے ساتھ بسر رات نہیں کر سکتی