سچی محبتوں کے زمانے کہاں گیۓ
سنتے تھے جو کبھی ، وہ فسانے کہاں گیۓ
سمجھے تھے جن کو ہم کبھی سرمایۂ حیات
تیری وفاؤں کے وہ خزانے کہاں گیۓ
رہتا تھا جِن کے ساتھ وہ گڑیوں سے کھیلنا
بچپن کے سارے ساتھی پرانے کہاں گیے
اب تیری کج روی کے وہ انداز کیا ہوۓ ؟
وہ تیرے روٹھنے کے بہانے کہاں گیۓ
سوچے تھے ایک ساتھ جو دونوں نے ہی کبھی
اچھے دنوں کے خواب سہانے کہاں گیۓ
عذراؔ تلاشِ رِزق میں میرے وطن کے لوگ
اپنی متاعِ جاں کو لٹانے کہاں گیۓ