سکوتِ تنہائی میں تنہائی صدا دیتی ہے
خودفراموشی بھی کیا راہ دکھا دیتی ہے
ہر چیز سے وابستہ ہے یاد تیری
ہر چیز مجھے اکثر رولا دیتی ہے
کسی آسیب کی طرح محبت بھی
شہر کے شہر مٹا دیتی ہے
اہل ء ذوق کے لئیے لازم ہے ظرف بھی
انتہاۓ شوق رسوائی بھی سجا دیتی ہے
مخلص جذبوں سے جو ہوں سرگرداں
ان کو منزل بھی دعا دیتی ہے
سلگا کر تیری یاد بھی اکثر
مجھے مجھ میں ہی جلا دیتی ہے
تخیل و خیالات میں بس کے میرے
تیری خواہش مجھے تیرا بنا دیتی ہے
میرے درد کو مجھ میں ہی دبا کر
میری مسکان کئی راز چھپا دیتی ہے
کچھ لوگ ہوتے ہیں نثر کی مانند
خاموشی ان کی بھی ہر بات بتا دیتی ہے
محبت میں وفاؤں کی انمول کشش
اناء کی ہر دیوار گرا دیتی ہے
مسافتِ عمر کی ہر تلاش میری
مجھے تیرا ہی پتا دیتی ہے
اک دلِ اداس، اک یاد تیری
میری وحشت کچھ اور بڑھا دیتی ہے
جلا دیتی ہے محبت کے چراغوں کو عنبر
وفا اپنے تقاضے کیا خوب نبھا دیتی ہے