ہر صدا ڈوب گئی دل کے نہا خانوں میں
ریگزاروں میں بگلوں کا جنوں ختم ہوا
ہر طرف پھیلا ہوا رات کا اندھیرا ہے
میں کہ صدیوں کی مسافت سے وہاں پہنچی تھی
ایک ہی شمع جلائی تھی میرے دل نے کبھی
اس دہکتے ہوئے سورج کی چرا کر کرنیں
اس نے چپ چاپ میرے دل میں جگہ پائی تھی
ریگزاوں میں مجھے جھیل نظر آئی تھی
اس کو پانے گے لئے میں ے بہت د سہے
اس سے سونے کی نہ چاندی کی تمنا تھی مجھے
یہی چاہا تھا کہ کچھ پیار کی سوغات ملے
یہی سوچا تھا کہ وہ غم کی چتاؤں سے نکالے مجھ کو
اور جب ہاتھ پھیلایا میں نے الفت کے لئے
اس کے در سے مجھے زخموں کے سوا کچھہ نہ ملا
آج وہ میری امیدوں کا بھرم ٹوٹ گیا
میں تو ارمان بھی دے آئی کسی اور کو آج
اب تو اس دل میں میرے کوئی بھی ارمان نہیں
اب تو زخموں کے سوا کچھ بھی میرے پاس نہیں
زندہ ہونے کا میرے ایک سہارا ہیں یہی