جہاں میں ہوں
وہاں پر، ذی نفس کوئی نہیں رہتا
سوائے کاروان سخت جاں کے رہ نوردوں کے
جو اپنی سر زمیں دشمن کے قدموں سے بچانے کو
ان اونچے کوہ ساروں
برف زاروں پر اتر آیا!
جہاں میں ہوں
وہاں پر برف اندر برف اگتی ہے
جہاں اتنی بلندی ہے کہ سانسیں ڈگمگا اٹھیں
ہوا ئیں بے حیات اتنی کہ موسم تھر تھرا اٹھیں
جہاں پر زندگی کرنے کے امکاں ٹوٹ جاتے ہیں
جہاں موسم مزاج یار کی صورت
گھڑی پل میں بدلتا ہے
عدو کے تنگ سینے کی طرح یہ تنگ رستے ہیں
شبوں کے بے کرم لمحوں میں ان راہوں پہ چلتا ہوں
کہ جن پر برف کی چادر
رگوں کو سرد کرتی ہے
جہاں میں ہوں
وہاں سورج نظر آتا ہے مشکل سے
جہاں پر دھوپ میں بس روشنی کا نام ہوتا ہے
جہاں گرمی کے موسم پر گماں ہوتا ہے جاڑے کا
جہاں پارہ نہیں اٹھتا
جہاں سبزہ نہیں اگتا
جہاں رنگوں کی پریوں کا کوئی میلہ نہیں لگتا
جہاں خوشبو گلابوں کی
پرندے،تتلیاں جگنو
اسی صورت پہنچتے ہیں
کہ جب اپنوں کے خط آئیں!
عدو کی بے حسی ایسی
کہ اس اندھی بلندی پر
نہ جانے کتنے سالوں سے
فقظ بارود کی صورت ہمارا رزق آتا ہے
جہاں میں ہوں
وہاں تصویر کا چہرہ سوالی ہے
نمود فن سے خالی ہے
وجود زن سے خالی ہے
جہاں بچوں کی باتوں کا کوئی جھرنا نہیں بہتا
جہاں بوڑھوں کی لاٹھی کی کوئی ٹک ٹک نہیں سنتا
جہاں میلوں مسافت تک
کوئی بستی نہیں بستی!
جہاں میں ہوں
وہاں پر لذت کام و دہن کیسی
جہاں مخصوص کھانا ہے
جو باسی ہے،پرانا ہے
مرے یہ نوجواں ساتھی
کہ جن کے عزم کا پرچم ہمالہ سے بھی اونچا ہے
یہ برفانی فضاؤں میں
مخالف سمت سے آتی ہواؤں سے بھی لڑتے ہیں!
دلوں میں یہ ارادہ ہے
وطن کا نام اونچا ہو
ہمارا مان اونچا ہو!!