سیاہی رو رہی جس محبت کے فسانے میں
وہ اوراق ہے پنہاں شاید اسی زمانے میں
میرے درد کی جنبش یہ میرا انتہائے غم
سُلگتا جا رہا ھوں میں دُھواں ہے آشیانے میں
تراشتے رہ گیا پتھر مصور میں بنوں انکا
سارے ارمان ہیں مدفن اپنے ہی کارخانےمیں
سُنو چمن سے بار بار یہ آرہی صداے گل
بہار کا مکیں ھوں ملا خزاں انجانے میں
وہ تیرا حوصلہ دیکھا یہ تیری بے بسی دیکھی
کہ ساحل پر نظر آئی تیری کشتی ویرانے میں