سینہ تان رکھو‘جفائیں آرہی ہیں
بے وفاؤں کے شہر سے صدائیں آرہی ہیں
میرے حریفوں سے اُس کی یاری بڑھ گئی ہے
دن بدن نئی سےنئی بددُعائیں آرہی ہیں
یہ کس کی نظر لگ گئی میرے پیار کو
یہ کونسے بیابانوں سے ہوائیں آ رہی ہیں؟
مجبوریاں بھی تو کچھ ہوتی ہیں انسان کی
ایک تم ہو کہ تمہیں ادائیں آ رہی ہیں
نہ اداؤں کے جال پھینکو ہماری طرف
وہ دیکھو ہمارے نام کی سزائیں آ رہی ہیں
ہم نے کہا تھا ‘جیت لیں گے تمہیں
اب سامنا کرنے اُس کی انائیں آ رہی ہیں