شام ڈھلتے ہی عجب کیف سا چھا جاتا ہے
کوئی یادوں کا دیا دل میں جلا جاتا ہے
ہجر کی رات کہاں درد سہا جاتا ہے
ایسا منظر تو قیامت ہے کہا جاتا ہے
ہم تو تنہا ہیں زمانے میں مسافر جیسے
دل مگر ضد پہ اڑا ہے کہ ہو کافر جیسے
میں وہی ہوں ترا گلشن بھی نیا سال وہی
ہر طرف روشنی ہے پھیلی مرا حال وہی
ہوا میں اڑتے پرندوں کے لیے جال وہی
اور گلیوں میں جو ہے بکتا ہوا مال وہی
سب تو ہیں پاس مگر کچھ بھی مرے پاس نہیں
دل دھڑکتا ہے مگر جینے کی تو آس نہیں
میں تو مجرم بھی نہیں پھر بھی ستایا مجھ کو
میں کہاں تھا کہاں تک ظلم ہے لایا مجھ کو
میں تو خوش تھا ترے غم نے ہے رُلایا مجھ کو
اس زمانے نے تو ہر جرم سکھایا مجھ کو
ترے ہوتے ہوے ماں کوئی مجھےغم نا تھا
میں کہیں بھی رہا پر زلف میں تو خم نا تھا
میں تو پھرتا ہوں اکڑ کر کے بھرم کچھ تو ہو
اب تری ذات کا یاں مجھ پہ کرم کچھ تو ہو
میں بہت درد میں ہوں درد یہ کم کچھ تو ہو
ترے یوں جانے پہ دل میں مرے غم کچھ تو ہو
تری ہر بات ہے سچی میں بتاؤں کیسے
کوئی ہمدرد نہیں درد سناؤں کیسے