آج برسوں بعد
وہ
پھر میرے آنگن میں آیا
تمام بہاریں اپنے سنگ لایا
آج بھی وہ مسکرای گنگنایا
یہ آرزدہ دل پھر سے کھلنے
لگا
نئے نئے خواب پھر بننے لگا
سوچا
میرے جذبوں کا اثر ھے جو
اسے کھینچ لایا
شائد دئیے زخموں پہ مرہم
رکھنے کا خیال آیا
بڑھتے قدم میرے وہیں تھم
سے گئے
اس کی اچٹتی ھوئی نگاہ
نے سب راز کھولا
کہ
آج اس کے مسکرانے اور
گنگنانے میں
میری سوچ کی پیاس نہ
تھی
مدنظر میری ذات تو نہ تھی
وہ کوئی اور تھ
جو میرا نہ تھ
خوش فہمی کے سارے
پھول مرجھا گئے
سچے جذبے بھی آج دغا
دے گئے
وہ قاتل ارماں
ہجر کا اک اور موسم دے
کر چلا گیا
اس کے چلے جانے کے بعد
آس کے در بند کرنے کے بعد
میری پلکیں آج بھی
نم تھیں
مگر آج نجانے کیوں میرے
آنسوؤں میں وہ شدت کم
تھی
آج شاہین بھی کوئی اور تھی
ہاں !
مگر اب اس کی نہ تھی