خوش اخلاقی کا درخت
جسے پیار نے تیرے
اعتبار نے تیرے
ہرا بھرا کیا
تلخیوں کی دھوپ
میں اب وہ
مرجھانے لگا ھے
زرد نصیب بھی
میرا ہونے لگا ھے
یقین کے پرندے
نے اس پہ تنکہ
تنکہ کر کے اعتماد
کا جو گھونسلہ
بنایا تھا
بے اعتمادی کی
تند و تیز آندھی
سب اڑا لے گئی
شک سے بڑی
کوئی بددعا
نہیں ہوتی
پر اثر پھر کوئی
وفا نہیں ہوتی
اے شاہین
ردّ وفا اور
ردّ دعا
میری تقدیر
بن چکیں۔
کہ اب
نہیں جس کا
توڑ مجھے وہ
بددعا لگ چکی