جو صدیوں کی کہانی ہے وہ لمحوں کی زبانی ہے
بہے جو اشک آنکھوں سے غموں کی ترجمانی ہے
وہ غم بھی معتبر ٹھریں محبت میں جو ملتے ہیں
وگرنہ چار سو بکھری خوشی اور شادمانی ہے
نہیں یہ زندگی ، اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں
کسی کے کام نہ آئے تو کیسی زندگانی ہے
اسے کیسے میں سمجھاؤں جو نہ سمجھے زباں میری
ہے ٹھہراؤ طبیعت میں نہ باتوں میں روانی ہے
جو رشتوں کے تقدس کو یونہی پامال کر ڈالے
وہ خود تو اینجہانی ہے مگر دل آنجہا نی ہے
دکھوں کو پالنا ،ا چھا شغل رکھا ہے شاہین نے
مگر ہر درد کے پیچھے نہا ں کو ئی کہانی ہے