کسی دور نگر جانے کو کرتا ہے دل
شاید اب میرا مر جانے کو کرتا ہے دل
تیری بے ُرخیوں نے مجھے خم کر دیا
اب بن اک پتھر جانے کو کرتا ہے دل
لکی چھوڑ دو اور کتنا آزماؤ گی
کہ اب بکھر جانے کو کرتا ہے دل
ضرورت نہیں کسی کی ہمدردی کی مجھے
بس قبر میں ُاتر جانے کو کرتا ہے دل
غموں سے بہت ہے چاک چاک سینہ
سمندر میں بن بھنور جانے کو کرتا ہے دل
یہاں اپنوں نے ڈوبویاں ہے پھر کسے آواز دوں
خاموشی سے ہار جانے کو کرتا ہے دل