یہ ابھی آپ نے جینے کی جو دعا دی ہے
آپ نے جلتے ہوئے شعلوں کو ہوا دی ہے
تم تو دو چار قدم چل کے ہی تھک ہار گئے
ہم نے تو عمر ہی اس راہ میں لٹا دی ہے
شاید اس کیفیت کا نام ہی محبت ہو
عجب سی تڑپ ہے سینے میں بے ارادی ہے
تمہارے ہاتھ سے پی ہے میں اتنا جانتا ہوں
مجھے معلوم کیا یہ زہر یا دوا دی ہے
جس نے مڑ کر کبھی دیکھا نہیں تعبیروں کو
دل نے ہر موڑ پہ اس خواب کو صدا دی ہے
کہاں کے اشک کہاں کا لہو کہاں کی آس
وہ ایک یاد تھی پلکوں سے جو گرا دی ہے
اے ذوق طب کیوں اب رات دن ٹڑپتے ہو
ساری ہستی تو تمہیں غزل میں دکھا دی ہے