خاموش ہوں مگر خفا ہوں میں
بہت دن سے بے وجہ ُاداس ہوں میں
تنہایوں کی محفل میں
بھی کتنا تنہا ہوں میں
کس طرف چل پڑا تھا تجھے ڈونڈھتے
جہاں راستے تو بہت ہیں
مگر منزل سے انجان ہوں میں
خون سے کون لکھ رہا تھا غزل اپنی
غور سے دیکھا آنیئے میں
عکس اپنا تو حیران ہوں میں
مجھ میں ہسنے والا شخص
مجھے تنہا چھوڑ کر نجانے کہا چلا گیا
جس کی خوشی نہیں پر جان ہوں میں
کوئی خطا ہیں یا پھر وقت برا ہیں
جو بہت ہار کے ہارا ہوں میں
شاید تبھی خود سے بدگمان ہوں میں
کاش ہوتی میری زندگی
میں بھی خوشیوں کی لہریں لکی
پر الجھ گیا غموں کے طوفان میں ہوں میں
وہ نادان بچہ اب مجھ
میں کیوں نظر نہیں آتا
شاید ! اک نادان کا قاتل ہوں میں