شب غم فرقت ہمیں کیا کیا مزے دکھلائے تھا
دم رکے تھا سینے میں کم بخت گھبرائے تھا
یا تو دم د یتا تھا یا وہ نا مہ بر بہکائے تھا
تھے غلط پیغام سارے یہاں کون تک آیا تھا
بل بے عیاری عدو کے آگے وہ پیماں شکن
وعدے وصل آج پھر کرتا تھا اور شرمائے تھا
سن کے میری مرگ بولے مر گیا اچھا ہوا
کیا برا لگتا تھا جس دم سامنے آجائے تھا
بات شب کو اس سے منع بے قراری پر بڑھی
ہم تو سمجھے اور کچھ وہ کچھ اور سمجھائے تھا
کوئی دن تو اس پہ کیا تصویر کا عالم رہا
ہر کوئی حیرت کا پتلا د یکھ کر بن جائے تھا
ہو گئی مد و روز کی الفت میں کیا حالت ابھی
مومن وحشی کو دیکھا اس طرف سے جائے تھا