شب فرقت کا اختتام نہیں
صبح روشن ہمارے نامہ نہیں
کس طرف رحمت تمام نہیں
کوئی تخصیص خاص و عام نہیں
چشم ساقی کی ایک گردش ہے
رقص میں میکدے کی شام نہیں
ان کی جانب سے میرے نام اب تک
کوئی نامہ نہیں، پیام نہیں
میری تقدیر خام کار سہی
جذبہء آرزو تو خام نہیں
تشنگی میں مری کلام بجا
فیض ساقی میں کچھ کلام نہیں
آستاں تک ترے رسائی ہو
اتنا اونچا مرا مقام نہیں
ہے یہ رندوں کا قول مفتٰی بہ
دست ساقی سے مے حرام نہیں
ہوں نصیر اک چراغ دہلی کا
کج کلاہوں کا میں غلام نہیں