کوئی پھینک رہا تھا مٹی بحر کے پانی میں
بدل گیا خون رنگ وقت کی روانی میں
آئے اندھیرے دل کے کونوں میں
بجھے جب چراغ ِ دل سوچ کی ویرانی میں
ایام فرصت میں بھی انقلابی رہا ہوں
کرتا رہا مشکل فیصلے دور ِ آسانی میں
شرم آتی ہے ناصح بنوں حالت کبر میں
یہ گوہر درویشی ملتے ہیں فقط جوانی میں