شعلئہ فکر و احساس میں بدر جی آخر ہم تو آتشیں بزاں ہو گئے
ہاں مگر اپنے شعروں کے پیغمبراں ، آگ میں پھول کا امتحاں ہو گئے
دور تک ریت ہی ریت ہے زندگی، دور تک دھوپ ہی دھوپ ہے زندگی
اَل عطش اَل عطش کوثر علم و فن ، اب تو کانٹوں کی سوکھی زباں ہو گئے
میں تو گیتی کے سینے کی نم آگ تھا، ابر بن کے برستا بکھرتا رہا
میری شبنم نظر جن کے منہ دھو گئی، وہ ہی ذرے محوِ کہکشاں ہو گئے
جنسِ دل تو پہلے بھی کیا گراں مایا تھی اور اب اس ترقئی ماقوس میں
سنگ ریزوں کے تاجر میرے دور میں، آئینہ ساز و شیشہ گراں ہو گئے
کون ہے اور کیا ہے خبر کچھ نہیں، ہاں مگر نبضِ دوراں تیرے واسطے
ہم کبھی آتشِ گل کی نم بن گئے، ہم کبھی پتھروں کی زباں ہو گئے