شعلہ سامان، کھلونوں سے بہل جاتا ہے
ہائے انسان، کھلونوں سے بہل جاتا ہے
حسن بت ساز کھلونوں کا پرانا خالق
عشق انجان، کھلونوں سے بہل جاتا ہے
ہم بہرحال حقیقت کو سمجھ لیتے ہیں
دل ہے نادان، کھلونوں سے بہل جاتا ہے
جو تیرے غم کی ندامت نہ اُٹھا سکتا ہو
وہ پشیمان، کھلونوں سے بہل جاتا ہے
موجِ گریہ سے لپٹ جاتے ہیں وعدے اُن کے
غم کا طوفان، کھلونوں سے بہل جاتا ہے
چشمِِ ساغر کو نہیں خواہشِ جنت واعظ
تیرا ایمان، کھلونوں سے بہل جاتا ہے