شفاف آنکھیں تیز ٹرک کی مُجھے لگا
اک موت کا فرشتہ تھا ہنستا گزر گیا
وہ پھول تیرے ہونٹوں کے چھونے سے جو کھلا
وہ پھول اور جون کی آتش بھری ہوا
نیزوں نے مجھ کو جیسے زمیں سے اٹھا لیا
میں تیرے نرم سینے سے جس دم جدا ہوا
جیسے کہ سارے شہر کی بجلی چلی گئی
آنکھیں کھلی کھلی تھیں مگر سوجھتا نہ تھا
تصویر میری پردہ تخلیق بن گئی
چڑیا نے اس کی آ ڑ میں اک گھر بسا لیا
باتیں کہ جیسے پانی میں جلتے ہوئے دیئے
کمرے میں نرم نرم اجالا سا بھر گیا
سر درد جیسے نیند کے سینے میں سو گیا
ان پھولوں جیسے ہاتھوں نے ماتھا جوں ہی چھوا
اک لڑکی اک لڑکے کے کاندھے پہ سوئی تھی
میں اجلی دھندلی یادوں کے کہرے میں کھو گیا
سناٹے آئے درجوں میں جھانکا چلے گئے
گرمی کی چھٹیاں تھیں وہاں کوئی بھی نہ تھا
ٹہنی گلاب کی میرے سینے سے لگ گئی
جھٹکے کے ساتھ رکنا غضب ہوا