آج تو جو نہیں تھا محفل میں
چراغ تڑپتا رہا شمع روتی رہی
دل کے آسماں پہ کہکشاں نہ ا گی
میں چاند رکھتا رہا وہ تارے بوتی رہی
اب کی بار اس کا دروازہ نہ کھلا
میں بھیگتا ہی رہا برسات ہوتی رہی
اجل سے بڑھ کر دوست ہے بتاؤ تو کوئی
میں ٹکڑے ہوتا رہی وہ بازؤں میں سموتی رہی