شمع کیا بجھی میرے دریچے میں جلتے جلتے
اپنی ہی تقدیر کے ہاتھوں مار کھا گئی
شام وہ اوروں کی طرح نکلا بے وفا
اور تو اپنی وفا کے ساتھ بھی ہار گئ
عجب بے تکی تیری کہانی ہےشام
جس میں تو خود کو ہی بھولا گئی
آنسو کی طرح آنکھ سے ٹپکتے ٹپکتے
شام اپنے ہی رستوں میں تو بہ گئ
جو اپنا گھر ڈھونڈتے ڈھونڈتے تو بھٹکی
اپنے سر کی چھت خود ہی گرا گئی
سیاہ رنگ پہن کر ماتم بھی کر اپنا
تیرے سپنوں کو کسی کے پاؤں کی دھول مٹا گئی
تیری بکھری زولفیں تیری اجڑی حالت کے سنگ
روتے روتے بھی شام کسی کی ذندگی سنوار گئی