شَمع
Poet: سید محمد زوہیب شاہ By: سید محمد زوہیب شاہ, karachiمیں اک شَمع ہوں، طوفان غَم نے بُجھایا مُجھ کو
 اِسی واسطے چند ایک مِزاج، ظالمانہ لۓ پھرتا ہوں
 
 میرے سَبھی یار خوش باش جانتے ہیں مُجھ کو
 اور میں اپنی ذات میں راز کا خزانہ لۓ پھرتا ہوں
 
 سَلیقَۂِ گُفتار کا تو کوئ، اندازہ ہی نہیں مُجھ کو
 رَسمِ زمانہ کی خاطر، بات کا بہانہ لۓ پھرتا ہوں
 
 کہنے والوں نے جب کہا، کَم عَقل ہی کہا مُجھ کو
 اَندیشہ ہے کہ حقیقت نہیں، فَسانہ لۓ پھرتا ہوں
 
 چہروں سے جانچنے کا ہُنر، معلوم نہیں مُجھ کو
 دِلوں کو پَرکھنے کا میں اب، پیمانہ لۓ پھرتا ہوں
 
 جُنبِشِ لَب سے مُیسّر، کامیابی کا سہرہ مُجھ کو
 اپنی خاموشی میں بھی اِک، دیوانہ لۓ پھرتا ہوں
 
 وقت نے دکھاۓ ہیں ارادتاً چھوڑنے والے مُجھ کو
 طَبیعت میں اب سے اپنی، مُنصِفانہ لۓ پھرتا ہوں
 
 نہ سَفر کی خَبر، نہ مَنزِل کا کُچھ معلوم مُجھ کو
 ذہن میں میرے بَس آخری، آشِیانہ لۓ پھرتا ہوں
  
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
 
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 