شکستہ دل تھے ترا اعتبار کیا کرتے
جو اعتبار بھی کرتے تو پیار کیا کرتے
ذرا سی دیر کو بیٹھے تھے پھر اٹھا نہ گیا
شجر ہی ایسا تھا وہ سایہ دار کیا کرتے
شب انتظار میں دن یاد یار میں کاٹے
اب اور عزت لیل و نہار کیا کرتے
کبھی قدم سفر شوق میں رکے ہی نہیں
تو سنگ میل بھلا ہم شمار کیا کرتے
ستم شناس محبت تو جاں پہ کھیل گئے
نشانۂ ستم روزگار کیا کرتے
ہماری آنکھ میں آنسو نہ اس کے لب پہ ہنسی
خیال خاطر ابر بہار کیا کرتے
وہ ناپسند تھا لیکن اسے بھلایا نہیں
جو بات بس میں نہ تھی اختیار کیا کرتے
درون خانۂ دل کیسا شور ہے ساجدؔ
ہمیں خبر تھی مگر آشکار کیا کرتے