تیرے شہر میں آیا ہوں
تو ملے اجنبی سمجھ کر
کچھ پل دے دو مجھے اپنی
زندگی کے آپ کی در پر آیا
فقیر سمجھ کر
کچھ نہیں مانگتا میں تجھ سے
صرف ایک بار مسکرا دے
مجھے جو سمجھ کر
ترسا ہوں تجھے ایک نظر دیکھنے
کو تو اپنا دیدار ہی کروا دے
خود کو چودھری کا چاند سمجھ کر
مجھے ضرورت ہے تیرے ساتھ کی
میرا ساتھ ہی دے دو مجھے
ضرورت مند سمجھ کر
تیرے بغیر جینا مشکل ہے بہت
اور حسرت ہے یہ ہماری کہ
آخری سانس نکلے تو تیرے
در پر اگر ہو ایسا ممکن تو
دفن دینا مجھے لاوارث سمجھ کر