شکوہِ خدا کے نشاں دیکھتا ہوں
زمیں پہ گرے آسماں دیکھتا ہوں
سجا تو زمیں پہ فقط اک جہاں ہے
تہِ ارض کتنے جہاں دیکھتا ہوں
سمندر کی لہریں ہیں بے چین و مضطر
جہاں قطرہ قطرہ نہاں دیکھتا ہوں
یقیں پہ مرے بےیقینی کا غلبہ
بتوں میں خدا کا گماں دیکھتا ہوں
گناہوں کی فصلیں عذابوں کے موسم
بہاروں پہ چھائی خزاں دیکھتا ہوں
مسافر گریزاں ہیں خود منزلوں سے
عجب سا یہ اک کارواں دیکھتا ہوں
عیاں جو بہت خوبصورت ہے تیرا
میں اپنی نظر کا گماں دیکھتا ہوں
تجھے دیکھنا میرا بھائے نہ بھائے
تجھے کیا خبر میں کہاں دیکھتا