کتنا بھی جوڑ جوڑ کر رکھوں میں
کانچ کا دل ہے میرا بار بار ٹوٹ جاتا ہے
سایہ غم کا مقدر ہے شا ید میرا
تعویز گلے میں پڑا جل جلا جاتا ہے
تعریف کروں تو میں بس دل کی کروں
اس قدر ستم پہ بھی جینا چاہتا ہے
اس قدر لائق سمجھتا ہے جو زمانہ مجھے
دل کا یہ حال ،دل،دکھانا چاہتا ہے
کسی خاموش شجر کی طرح،کھڑآ جلتا رہا
یہ تیری یاد سے شاید جلنا چاہتا ہے
مایوس ہو کے کئ بار لوٹ جاتا ہے بے مراد
تیری عقل کو تآّبّع فرمان عشق کر نہ سکا سچ میرا
اب تو بس گلا ہے تو تم سے ہے
اس قدر تم سے عشق ہوا کیوں ہے؟
اور سوالات کئی ہیں دل کے
جانے کیوں اشک گرا، لفظ ادا کر نہ سکا
خاموشیوں کی جنگ میں جیتے تم ہو
ہر بازی تم سے ہارا دل ہے