شکوہ نہیں ہے کوئی، شکایت نہیں کوئی
باقی جو اس کے دل میں محبت نہیں کوئی
جنت کی اس کے حق میں بشارت نہیں کوئی
آنکھوں میں جس کی اسکِ ندامت نہیں کوئی
ہم کو ہے یار تم سے عداوت نہیں کوئی
جب تک کروگے ہم سے بغاوت نہیں کوئی
اے یار کیوں مکرتے ہو یوں بات بات پر
یہ عشق ہے حضور! تجارت نہیں کوئی
واعظ ہمیں ڈراتا ہے کیوں روزِ حشر سے؟
اس عشق سے بڑی تو قیامت نہیں کوئی
بس اک ہی دعا ہے، میسر ہو اس کی دید
دل میں ہمارے دوسری حسرت نہیں کوئی
ہر شخص کیوں یہ پوچھتا ہے شمسؔ کا پتہ
اب تک ملی ہے اس کو تو شوہرت نہیں کوئی