تعلق ٹوٹتا بنتا ہے ‘ بنتا ٹوٹتا ہے
یہی کھیل ایک انسان زندگی بھر کھیلتا ہے
ہزاروں بار دیکھے دیکھے منظر پوچھتے ہیں
انہیں حیرت سے کیوں ہر بار کوئ دیکھتا ہے
بلا بھی لوں اسے تو وہ نہ شاید لوٹ پائے
کروں کیا دل مگر واپس بلانا چاہتا ہے
ہے زندہ جو بھی ان حالات میں شہر انا میں
سمجھ لو پھول کی پتی سے پتھر کاٹتا ہے
غلط باتوں کو کر پاتا نہیں برداشت روحی
رگوں میں خون ہی میری کچھ ایسے دوڑتاہے
جو تاجر نفرتوں کے ہیں نظر میں انکی روحی
بڑا مجرم وہی ہے جو محبت بانٹتا ہے