شہر بے رحم سے بغاوت کی ہے
شائد اپنے آپ سے عداوت کی ہے
اتنا لپکی کہ حلقہ زنجیر بن گئی
فٹ پاتھ کی گھاس نے جسارت کی ہے
اب نہ ٹوٹیں گئے کبھی نازک آبگینے
شیشوں نے پتھروں سے تجارت کی ہے
شائد اسی لے ہمارے آنگن میں آگ برستی ہے
مظلوموں کے لہو سے ہم نے سخاوت کی ہے
کوئی اور نہیں مجرم گھر کی بربادی کا
ہمارے کردار نے ہماری ایسی حالت کی ہے