شہر سے پیار نہ گاؤں سے پریشانی ہے

Poet: عباس شمسی By: عباس شمسی, Khairpur

شہر سے پیار نہ گاؤں سے پریشانی ہے
ہمیں دن رات کے فاقوں سے پریشانی ہے

اس کے کوچے میں کوئی جاتے ہوئے دیکھ نہ لے۔
آج شب چاند ستاروں سے پریشانی ہے۔

بعض اوقات کوئی خوبی بھی لے ڈوبتی ہے
ایک معمار کو ہاتھوں سے پریشانی ہے۔

خیمہ_ جسم میں اس دل کو وہی الجھن ہے
جیسی دریا کو کناروں سے پریشانی ہے۔

سنگ مرمر سے بنے شہر کے باسی ہیں ہم
سو ہمیں آبلہ پاؤں سے پریشانی ہے۔

جو مری آنکھ کا دریا ہے تلاطم کا شکار
اسے بچھڑے ہوے یاروں سے پریشانی ہے۔

Rate it:
Views: 657
12 Jan, 2022