شہر مدفن کے ویران گوشے میں
Poet: Areeba Baloch By: Areeba Baloch, Multanشہر مدفن کے ویران گوشے میں
وہ بکھرا بکھراسا شخص
جسکی حالت پہ تبسم کر کے
لوگ چپکے سے گزر جاتے
مگر ان گزرنے والوں میں
میرا نام کیوں نہیں تھا شامل
ہر بار وہاں سے گزرنے میں جانے
میں تاخیر کیوں کرتا تھا
گھنٹوں وہاں بیٹھ کے
اس شخص کی صورت میں
جانے میں کیا کھوجتا رہتا تھا
ہر بار جب بھی اسے دیکھا
وہ ویران قبروں کے کتبوں کو
بڑے غور سے دیکھتا رہتا تھا
جیسے کوئی نجومی ہمہ تن گوش ہو کے
کسی کے مقدر کو پڑھتا ہے
میں نے جب جب اسے دیکھا
بہت بکھرا بکھرا سا وہ ہوتا
اسکے چہرے کی جھریوں میں
جلتا بجھتا سا کوئی قصہ ہوتا تھا
تھکی تھکی سی اسکی آنکھیں
لگتا تھا کبھی بھر پور چمکتی تھیں
گردشوں میں گھرا وہ شخص
اجڑا اجڑا سا وہ شخص
خامشی کے اندھیرے میں ڈوبا وہ شخص
ہر بار میں جب بھی اسکے پاس رکتا
پھر رکا ہی رہتا تھا
اسکی آنکھیں جن سوالوں کی
تفسیر بتاتی تھیں انہیں
جب جب میں سلجھانے کی
کوشش کرتا تھا
ہر بار اک نئی الجھن
میں الجھ جاتا تھا
جانے ہر بار وہ اسکا شکستہ چہرہ
مجھے صدیوں کا جانے
مانوس کیوں لگتا تھا
اسکے چہرے میں مجھے
وجاہت و جلال کا ہلکا سا رنگت دکھتا
محبت و عشق کے مٹے مٹے نقوش بھی
اسکے چہرے پہ ثبت تھے
آج پھر یارو میں وہاں
گھنٹوں بیٹھا رہا
اس بے حال اجڑے شخص کو کھوجتا رہا
الجھے الجھے سوالوں جیسا وہ کمال شخص
خود کو چھپانے میں بڑا ہی ماہر تھا
مگر یارو وہ اسکی آنکھیں
خموش لب وہ اسکے
نڈھال چہرے نے اسکے
اتنا تو مجھے بتا ہی دیا تھا
کہ اسے اجاڑا بھی عشق نے ہے
کہ اسے مارا بھی عشق نے ہے
مگراسکا مانوس مانوس لگنا
جانا پہچانا اجنبی سا لگنا
یہ گتھی بھی خود ہی سلجھائی میں نے
کہ ہم روگ ہے وہ
ہم درد بھی ہے
تو اسی پہچان پہ شاید
صدیوں کا شناسا لگتا تھا
مگر اب تو تہیہ کیا تھا میں نے
کہ پوچھوں گا اس سے
نہیں بتلائے گا تو پھر پوچھوں گا
کہ کس قدر سچا ہوں میں
اور کتنے صحیح ہیں جواب میرے
مگر انوکھی خبر ملی
کہ شہر خاموشاں میں بیٹھنے والا
وہ شکستہ حال الجھا الجھا سا شخص
آج سر شام ہی مر گیا وہ
اس پہ کیا بحث کرنی یہ کوئی دلیل دینی
فقط اتنا کہوں گا یارو
کہ جو عشق میں ہار جائے
دنیا میں بے کار ہو جائے
انجام تو پھر اسکا موت ہوتا ہے
ہاں موت ہوتا ہے
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






