شہر مدفن کے ویران گوشے میں
وہ بکھرا بکھراسا شخص
جسکی حالت پہ تبسم کر کے
لوگ چپکے سے گزر جاتے
مگر ان گزرنے والوں میں
میرا نام کیوں نہیں تھا شامل
ہر بار وہاں سے گزرنے میں جانے
میں تاخیر کیوں کرتا تھا
گھنٹوں وہاں بیٹھ کے
اس شخص کی صورت میں
جانے میں کیا کھوجتا رہتا تھا
ہر بار جب بھی اسے دیکھا
وہ ویران قبروں کے کتبوں کو
بڑے غور سے دیکھتا رہتا تھا
جیسے کوئی نجومی ہمہ تن گوش ہو کے
کسی کے مقدر کو پڑھتا ہے
میں نے جب جب اسے دیکھا
بہت بکھرا بکھرا سا وہ ہوتا
اسکے چہرے کی جھریوں میں
جلتا بجھتا سا کوئی قصہ ہوتا تھا
تھکی تھکی سی اسکی آنکھیں
لگتا تھا کبھی بھر پور چمکتی تھیں
گردشوں میں گھرا وہ شخص
اجڑا اجڑا سا وہ شخص
خامشی کے اندھیرے میں ڈوبا وہ شخص
ہر بار میں جب بھی اسکے پاس رکتا
پھر رکا ہی رہتا تھا
اسکی آنکھیں جن سوالوں کی
تفسیر بتاتی تھیں انہیں
جب جب میں سلجھانے کی
کوشش کرتا تھا
ہر بار اک نئی الجھن
میں الجھ جاتا تھا
جانے ہر بار وہ اسکا شکستہ چہرہ
مجھے صدیوں کا جانے
مانوس کیوں لگتا تھا
اسکے چہرے میں مجھے
وجاہت و جلال کا ہلکا سا رنگت دکھتا
محبت و عشق کے مٹے مٹے نقوش بھی
اسکے چہرے پہ ثبت تھے
آج پھر یارو میں وہاں
گھنٹوں بیٹھا رہا
اس بے حال اجڑے شخص کو کھوجتا رہا
الجھے الجھے سوالوں جیسا وہ کمال شخص
خود کو چھپانے میں بڑا ہی ماہر تھا
مگر یارو وہ اسکی آنکھیں
خموش لب وہ اسکے
نڈھال چہرے نے اسکے
اتنا تو مجھے بتا ہی دیا تھا
کہ اسے اجاڑا بھی عشق نے ہے
کہ اسے مارا بھی عشق نے ہے
مگراسکا مانوس مانوس لگنا
جانا پہچانا اجنبی سا لگنا
یہ گتھی بھی خود ہی سلجھائی میں نے
کہ ہم روگ ہے وہ
ہم درد بھی ہے
تو اسی پہچان پہ شاید
صدیوں کا شناسا لگتا تھا
مگر اب تو تہیہ کیا تھا میں نے
کہ پوچھوں گا اس سے
نہیں بتلائے گا تو پھر پوچھوں گا
کہ کس قدر سچا ہوں میں
اور کتنے صحیح ہیں جواب میرے
مگر انوکھی خبر ملی
کہ شہر خاموشاں میں بیٹھنے والا
وہ شکستہ حال الجھا الجھا سا شخص
آج سر شام ہی مر گیا وہ
اس پہ کیا بحث کرنی یہ کوئی دلیل دینی
فقط اتنا کہوں گا یارو
کہ جو عشق میں ہار جائے
دنیا میں بے کار ہو جائے
انجام تو پھر اسکا موت ہوتا ہے
ہاں موت ہوتا ہے