تمہارے شہر والوں نے مجھے پھر سے بلایا ہے
کئی مکتوب لکھے ہیں
سبھی میں لوٹ آنے کا بہت اصرار کرتے ہیں
مگر اب سوچتا یہ ہوں
اگر میں لوٹ بھی جاؤں
وہاں تم کو نہ پاؤں گا
تمہاری یاد کے نشتر میرا دل چیر ڈالیں گے
ذہن کے ہر دریچے میں تمہارا عکس قائم ہے
مٹانا جس کو اب میرے لیے ممکن نہیں ہوگا
وہ گزرے وقت کی چاہت میں ڈوبی دلنشیں باتیں
تمہارے سنگ بیتی جو حسیں شامیں جو برساتیں
مجھے ان خوبصورت لمحوں کی یادیں ستائینگی
میری آنکھیں
جو اب صحرا کی مانند ہوچکی ہیں
پھر بھر آئینگی
خدارا شہر والوں کو میرا پیغام دے دینا
میں اب ماضی کا قصہ ہوں جسے اب بھول جانا ہی
رقم کرنے سے بہتر ہے
اشہر وہ راکھ ہے جسکو فضاؤں میں اڑا دینا
دفن کرنے سے بہتر ہے