شہر کا ہر مکیں اداس ہے نہ جانےکیوں
سب کی آنکھ میں یاس ہے نہ جانے کیون
اس دنیا میں جتنے بھی پرانے پاپی ہیں
ان کے تن پہ اجلا لباس ہے نہ جانےکیوں
دور حاضر کے لوگوں کی زبان میں
پہلے جیسی نا باس ہےنہ جانےکیوں
حلوائی میرےشعرجلیبی میں ڈالتےہیں
ان میں بے حد مٹھاس ہےنہ جانےکیوں
میں دن بھر اس کی تصویر دیکھتارہتاہوں
پھربھی بجھتی ناپیاس ہے نہ جانےکیوں
اپنی تمام عمر محنت کرتے گزری اصغر
مگردولت نہ اپنےپاس ہےنہ جانےکیوں