شہیدِ مدرسہ کی ماں اور خون آلود بستہ
Poet: فدا حسین بالہامی By: فدا حسین بالہامی, srinagarآزاد نظم-سانحہ پشاور کے تناظر میں
شہیدِ مدرسہ کی ماں اور خون آلود بستہ
کتابوں سے بھرا تیرا خون آلود بستہ
نہاں خانہء دل میں رکھوں یا طاقِ نسیاں پر
عجب مخمصے میں ہوں میرے لاڈلے
اسے رکھ لوں کہ دریا برد کردوں
کہ یہ سوہانِ روح بھی ہے
آزارِ جاں بھی
اسی میں ہے
میری تمناووں کے لاشے
جنہیں آنکھیں پھاڑکر دیکھتی ہوں
اور اسی میں ہے اکثیرِ حیات بھی
اسے رکھ لوں کہ دریا برد کر لوں
کتاب و قلم نوحہ گر ہے
گریاں ہے ذرایع علم کے
ام الکتاب بھی ماتم کناں ہے
ٹوٹی ہوئی پنسل
شاخِ بریدہ ہے میرے اجڑے گلستان کی
اسے رکھ لوں کہ دریا برد کردوں
وہ کاپیاں اور اس میں تیری بے سدھ لکھائی
میری نظر میں ہیں ۤآسمانی صحیفے
دیکھتی ہوں بین السطور تیری موہنی صورت
لہو رنگ اوراق میں
چھپاہے قاتل بھی تیرا
اور کہتاہے
زرا پہچان لومجھے
کون ہوں میں؟
اسے رکھ لوں کہ دریا برد کر لوں
تیرا یہ خون آلود بستہ
جسے ہیں تیری یادیں وابسطہ
خونِ ناحق کا اک گواہ ہے
اور درندگی کا بولتا ثبوت بھی
اسے رکھ لوں کہ دریابرد کر دوں
بپا ہو گا کل جو محشر
لئے شاہِ کربلا کا پھٹا کرتا
تشریف لائیں گی جو حضرتِ زہراؑ
جاووں گی میں بھی پیشِ شاہِ محشر
یہی تیرا بستہ لئے
دہائی اے بانیء عدالتِ انسانی
تیری بیٹی کا بیٹا شہیدِ نینوا ہے
میرا بیٹا بھی شہید ِ مدرسہ ہے
مگر اے راہِ عدم کے ننھے مسا فر
قیامت ہے اسے محفوظ رکھنا
تیرے بدلے اسے ہر روز تکنا
اسے رکھ لوں کہ دریا برد کردوں
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






