صاف جب تک نہ ترے ذہن کے جالے ہوں گے
کیسے تحریر محبت کے مقالے ہوں گے
کیا ہمیں نیند بھی آئے گی تری خواہش پر؟
کیا فقط خواب ہی ہم دیکھنے والے ہوں گے
اس طرح دشتِ محبت سے گذر جاں گا
جسم زخمی نہ مرے پاں میں چھالے ہوں گے
کیسے ہو گی مری چاہت کی امانت محفوظ
اس نے ابتک مرے خط کیسے سنبھالے ہوں گے
گھر کے اندر بھی کوئی مجھ پہ توحہ دیتا
گھر کے باہر تو کئی چاہنے والے ہوں گے
جس مسیحائی کی تاریخ لکھی جائے گی
اس میں شامل مرے زخموں کے حوالے ہوں گے