صدائیں قید کروں میں صدا مخالف ہے
مہکتے جسم کی خوشبو مرا مخالف ہے
بلا کا شور ہے طوفان آ گیا شاید
کہاں کا رخت سفر جو ہوا مخالف ہے
تری امانتیں محفوظ رکھ نہ پاؤں گی
دوبارہ لوٹ کے آنا ترا مخالف ہے
یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا
دیا جلایا بھی میں نے ہوا مخالف ہے
میں چاہتی ہوں ٹھہر جائے چشم دریا میں
لرزتا عکس تمہارا نیا مخالف ہے
بیاض بھر بھی گئی اور پھر بھی سادہ ہے
تمہارے نام کو جو لکھا مخالف ہے
چلو یہ اچھا ہوا آنے والے طوفاں سے
بچے گی جان کہ وشمہ انا مخالف ہے