صنم صورتوں نے جو، کچھ کہا
زخمِ دل اور بھی گہرا ہؤا
اِک مجھ پر ہی موقوف نہیں
کتنوں نے درد و غم سہا
دل میں میں تھیں بہت باتیں
پر لفظ ہی زباں پہ رُک گیا
ٹوٹا ہؤا گھر کہہ رہا ہے
اِک شخص یہاں رہتا تھا
میراسایہ بھی چھوڑ گیا مجھکو
کِس کا نصیب بھلا ایسا ہو گا
موسمِ گل کے انتظار میں
اِک دریچہ ہےاب بھی کُھلاہؤا