ضد ہے،تو چھو لو گرمیِ دل ،جل کے دیکھ لو
میں مسافرہوں قدم بھر سنگ چل کے دیکھ لو
دیکھنا کھا کے ٹھوکر ،گھائل نہ ہو جانا کہیں
راہ میں، حائل ہوں میں، تم سنبھل کے دیکھ لو
مجھ پر اک موسم مسلسل ہے خزاں کا برقرار
ھاتھ پہ لکھی میری تقدیر بدل کے دیکھ لو
خوف کیا تم کو نہیں ہےگھپ اندھیری رات سے
مایوسیوں کی رات میں تم بھی دہل کے دیکھ لو
قید ہو کیوں تم بھلا میرے بدن کی جیل میں
اے میری بدحال روح تم تو نکل کہ دیکھ لو