طاری ہوا بڑھاپا اور کھو گئی جوانی
بس دیکھتے ہی دیکھتے گزری یہ زندگانی
وہ چستی و طراری وہ تیز رو جوانی
آئے کہاں سے آخر وہ پہلی سی روانی
طبیعت میں جو تیزی تھی کم تر ہوئی جاتی ہے
جھک جھک کے ہو گئی ہے اپنی کمر کمانی
فطرت کی عاجزی نے اتنا جھکا دیا ہے
لگتی ہے یہ عمارت خستہ بھی اور پرانی
کوئی پوچھ لے مگر ہمیں کہنا نہیں آتا کہ
کیونکر بسر ہوئی ہے اپنی یہ زندگانی
خوشیوں کے شادیانے کہیں آہ و بقا ہے
ہر روز کا فسانہ ہے، ہر روز کی کہانی
دنیا کی حقیقت سے آگاہ ہیں سبھی پھر بھی
دنیا کے لئے دنیا کیوں ہوتی ہے دیوانی
سب جانتے ہیں لیکن یہ مانتے نہیں ہیں
یہ دنیا عارضی ہے ہر شے یہاں کی فانی
رک جاؤ سنبھل جاؤ حد سے نہ گزر جاؤ
جو پیچھے مڑ کے دیکھو ہو جاؤ پانی پانی
اک بار کی غلطی کو دیکھو نہیں دہرانا
جو ہو چکی نہ کرنا پھر سے وہی نادانی
گردش کی زد میں آ کے عظمٰی گنوا چکے ہم
وہ شورش و ہنگامہ وہ فطرت طوفانی