ستاروں سے نظاروں سے تیری ہر بات کہتے ہیں
سنا کرتے ہیں چھپ چھپ کر جو اپنی بات کہتے ہیں
کسے سنائیں دل کی داستاں کس سے کریں باتیں
ستاروں سے ہی اس ماہتاب کی ہر بات کہتے ہیں
شب ماہتاب سے لیکر طلوع آفتاب تک
بہت بےچین رہتے ہیں بہت بےتاب رہتے ہیں
شب ہجراں میں اک پل کے لئے ہم سو نہیں پاتے
تیری یادوں میں جاگیں بھی تو محو خواب رہتے ہیں
یہ پردہ داریاں تو محض دنیا کا دکھاوا ہے
تیری جناب میں تو سارے بےنقاب رہتے ہیں
تیری جفاؤں میں بھی خوشبوئے وفا آتی ہے
اسے لئے تیرے ہنس کر عتاب سہتے ہیں
ساحل کی تمنا میں سمندر میں ڈوب کر
لہروں کے سنگ سنگ پے حساب بہتے ہیں
اشکوں سے رنج و غم سے بھری زندگی تمام
اسی لئے لوگ زندگی کو غم کی کتاب کہتے ہیں