طوفان آیا روک گیا اچھا ہوا
کیوں پھر دل رو کے قصہ سنا رہا ہے
خاموش رہے بس رو دیے
جانے کیا کیا یہ بتا رہا ہے
یہ طفل بھی ہوگیا ہے خود دار سا
میری طرح یہ بھی کچھ قدم بڑھا رہا ہے
سمجھا تھا سنگدل ہے کہاں آئے گا آنکھ میں آنسو
پر یہ تو رو رو کے دریا بہا رہا ہے
دیکھے قلزم بچارا چاند غریب بھی
روشنی کر کے اپنا داغ دیکھا رہا ہے