ظلمت شب ہو گی جتنی بھی سینہ سپر
صبح کے اجالے کو کہاں روک پائے گی
اک روشنی کی کرن چیر دے گی اندھیرے کی فصیل
نوید صبح روشن ضرور آئے گی
خاک اڑے گی اونچے اونچے ایوانوں میں
دھول جب غریب کے پاؤں سے اڑ جائے گی
غریب محنت سے بھی محروم روٹی سے بھی
فصل بوئی جائے گی تو کاٹی جائے گی
فلک بوس پہاڑوں پر برف جمی ہو جتنی بھی
دھوپ چمکے گی تو یہ دھرتی سیراب ہو جائے گی
پستی کے مکینوں کے خواب ہمالیہ سے بھی اونچے ہیں
وہ سوچتے ہیں کہ یہ زمیں اک روز چاند ہو جائے گی