بجھ گئے امیدوں کے دیپ اور چراغ
زندگی سکھ کا دے کوئی مجھ کو سراغ
حرماں نصیبی کا لگا ہے دامن پہ داغ
آج کا دن روز محشر سے بڑھ کر سہی
دلِ نامراد پہ ٹوٹی ہے پھر قیامت وہی
آئی ہے تیری یاد ہؤا ہے غضب یہی
کوئی دیکھے کہ آئے ہیں طوفاں کیا کیا
کھو گئے نشیمن لٹ گئے آشیاں کیا کیا
عیاں زخم زخم ہیں نہاں کیا کیا
وقت بُرا سہی آخر کو ٹل جائے گا
اپنا بھی اندازِ زندگی بدل جائے گا
سکوں ملے گا قرار بھی مل جائے گا
تیری یادیں تو میرا ساتھ نہ چھوڑیں گی
جوڑیں گی مجھ کو اور پھر توڑیں گی
میری زیست کے رخ کیا کیا موڑیں گی
مایہ پا کر غریب محبت کو ٹھکرانے والی
دل سے نکلی نہیں دولت کو اپنانے والی
کیسے بھولوں تجھ کو او ہردم یاد آنے والی؟