عجب تیری محبت ہے
Poet: SN Makhmoor By: SN Makhmoor, Karachiعجب تیری محبت ہے
تجھے مجھ سے شکایت ہے
نہیں کرتے گلہ دلبر
نہیں اچھی یہ عادت ہے
تو جیسا ہے لگے اچھا
محبت کی یہ صورت ہے
حسیں تجھ سے جہاں میں ہیں
مگر تجھ سے محبت ہے
جو کہتے ہیں عد و مجھکو
مجھے ان سے بھی اُلفت ہے
غزل میری سخن میرا
وفا میں یہ ریاضت ہے
وہ مجھ کو جان کہتا تھا
جو پوچھے کس کی میّت ہے؟
غزل ہوتی نہیں ممکن
مری غم سے عداوت ہے
مرا سینہ ترا خنجر
عداوت بھی عنایت ہے
گرے آنسو بہے ارماں
یہ ہی میری کتابت ہے
خمار ِ جاں ر ہا ہر پل
وفا میں یہ عبادت ہے
سنوارو ! جاں کبھی مجھ کو
مجھے تیری ضرورت ہے
میں زندہ ہو بنا تیرے
یہ ہی خود سے شکایت ہے
گریباں چاک کرتا ہوں
ترے پیچھے یہ حالت ہے
جنون ِ جاں اے جان ِ جاں
مجھے اب بھی محبت ہے
یہاں ملتا نہیں انساں
میں جیسا ہوں غنیمت ہے
کبھی مجھ سے ملو تو تم
یہ ادنیٰ بھی قیامت ہے
رہا تنہا ترا مخمورؔ
اِسے بس تجھ سے اُلفت ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






