عجب تیری محبت ہے
تجھے مجھ سے شکایت ہے
نہیں کرتے گلہ دلبر
نہیں اچھی یہ عادت ہے
تو جیسا ہے لگے اچھا
محبت کی یہ صورت ہے
حسیں تجھ سے جہاں میں ہیں
مگر تجھ سے محبت ہے
جو کہتے ہیں عد و مجھکو
مجھے ان سے بھی اُلفت ہے
غزل میری سخن میرا
وفا میں یہ ریاضت ہے
وہ مجھ کو جان کہتا تھا
جو پوچھے کس کی میّت ہے؟
غزل ہوتی نہیں ممکن
مری غم سے عداوت ہے
مرا سینہ ترا خنجر
عداوت بھی عنایت ہے
گرے آنسو بہے ارماں
یہ ہی میری کتابت ہے
خمار ِ جاں ر ہا ہر پل
وفا میں یہ عبادت ہے
سنوارو ! جاں کبھی مجھ کو
مجھے تیری ضرورت ہے
میں زندہ ہو بنا تیرے
یہ ہی خود سے شکایت ہے
گریباں چاک کرتا ہوں
ترے پیچھے یہ حالت ہے
جنون ِ جاں اے جان ِ جاں
مجھے اب بھی محبت ہے
یہاں ملتا نہیں انساں
میں جیسا ہوں غنیمت ہے
کبھی مجھ سے ملو تو تم
یہ ادنیٰ بھی قیامت ہے
رہا تنہا ترا مخمورؔ
اِسے بس تجھ سے اُلفت ہے